فرانس کی پارلیمان نے فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کی علامتی قراداد منظور کرلی ہے جب کہ فرانسیسی وزیرِ خارجہ نے خبردار کیا ہے کہ اگر مشرقِ وسطیٰ امن عمل میں پیش رفت نہ ہوئی تو ان کی حکومت اس قرارداد پر عمل کرے گی۔
منگل کو ہونےو الی رائے شماری میں فرانسیسی پارلیمان میں قرارداد کے حق میں 339 ووٹ آئے جب کہ 151 ارکان نے اس کی مخالفت کی۔
قرارداد فرانس کی حکمران جماعت 'سوشلسٹس' نے پیش کی تھی جس کی بائیں بازو کی جماعتوں کے علاوہ بعض روایت پسند ارکانِ پارلیمان نے بھی حمایت کی۔
قرارداد میں فرانسیسی حکومت پر زور دیا گیا ہے کہ وہ "مشرقِ وسطیٰ میں جاری تنازع کو مستقل طور پر حل کرنے کا مقصد حاصل کرنے کے لیے فلسطینی ریاست کو تسلیم کرے۔"
قرارداد پر رائے شماری سے قبل پارلیمان میں خطاب کرتے ہوئے وزیرِ خارجہ لوغاں فبیوس کا کہنا تھا کہ قرارداد کی حیثیت علامتی ہے اور ان کی حکومت اس پر عمل درآمد کی پابند نہیں۔
لیکن انہوں نے واضح کیا کہ مشرقِ وسطیٰ میں موجودہ صورتِ حال کا برقرار رہنا ناقابلِ قبول ہے اور اگر تنازع کے حل کے جاری حتمی سفارتی کوششیں بھی ناکامی سے دوچار ہوئیں تو فرانس فلسطینی ریاست کو تسلیم کرلے گا۔
فرانسیسی
وزیرِ خارجہ نے اسرائیل اور فلسطینیوں کے درمیان تنازع کے دو ریاستی حل کے لیے مذاکرات کو فیصلہ کن بنانے کی غرض سے دو سال کی ڈیڈلائن مقرر کرنے کی تجویز بھی پیش کی۔
تجزیہ کاروں کے مطابق فرانسیسی پارلیمان میں مذکورہ قرارداد کی منظوری فرانس میں فلسطینیوں کے لیے بڑھتی ہوئی حمایت اور اس ضمن میں فرانسیسی حکومت پر عوام کے دباؤ کا مظہر ہے۔
رائے عامہ کے ایک حالیہ جائزے کے مطابق فرانس کے 60 فی صد عوام فلسطینی ریاست کے قیام کی حمایت کرتے ہیں۔
حالیہ ہفتوں کے دوران فرانس فلسطینیوں کے حق میں قرارداد منظور کرنے والا یورپ کا چوتھا ملک ہے۔
اس سلسلے کا آغاز دو ماہ سوئیڈن سے ہوا تھا جہاں بائیں بازو کی جماعت نے اقتدار سنبھالنے کے چند دن بعد ہی فلسطینی ریاست کو باقاعدہ طور پر تسلیم کرنے کا اعلان کیا تھا۔ سوئیڈن کے اس اقدام پر اسرائیل نے بطور احتجاج اسٹاک ہوم سے اپنا سفیر واپس بلالیا تھا۔
بعد ازاں برطانیہ اور پھر آئرلینڈ کے قانون سازوں نے بھی علامتی قراردادیں منظور کرکے اپنی اپنی حکومتوں سے فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کا مطالبہ کیا تھا جب کہ گزشتہ ماہ اسپین کی پارلیمان نے بھی بھاری اکثریت سے اسی نوعیت کی علامتی قرارداد منظور کی تھی۔